پرانا واقعہ ہے ایک نوجوان مجھ سے ایک مسلئہ پوچھنے آیا اور کہنے لگا مفتی صاحب مجھے آپ سے ایک مشورہ کرنا ہے اگر اجازت دیں تو ؟

💞💞💞💞مدنی سومرو 💞💞💞💞

چنانچہ میرے اجازت دینے پر وہ شخص کہنے لگا میری بیوی حمل سے ہے لیکن ڈاکٹرز کا کہنا ہیکہ آپکی بیٹی پیدا ہوگی لیکن وہ ٹانگوں سے معذور ہے۔

بس مفتی صاحب آپ بتا دیں کیا میں حمل گرا سکتا ہوں؟

چنانچہ میں نے حمل کی مدت پوچھی تو بتایا کہ چار ماہ سے اوپر ہوچکے ہیں
میں نے جوابا کہا کہ چار ماہ میں تو حمل میں روح ڈال دی جاتی ہے لہذا اب حمل گرانا قتل کے حکم میں ہوگا

بس میرا یہ کہنا تھا کہ وہ نوجوان چھلانگ لگا کر اٹھا کہ مفتی صاحب اگر اللّٰہ حکم ہے تو اب ہرگز میں یہ حمل نہیں گراؤں گا اور اللّٰہ کے ہر فیصلہ پر راضی رہوں گا۔

میں سارا سارا دن اس شخص کی جگہ خود کو رکھتا اور اپنا اللّٰہ پر توکل ٹٹولتا رہا کہ کیا اگر یہ آزمائش مجھ پر آتی تو نہ جانے کیا میں اس حکم پر عمل کر سکتا تھا !!!

خیرزندگی کے ایام اپنی روانی سے گزرتے رہے یہاں تک کہ چھ سال گزر گئے چنانچہ اک دن میں معمول کے مطابق آفس کے کاموں میں مصروف تھا کہ وہ نوجوان ایک پیاری سی گڑیا جس نے پانی کی بوتل گلے میں ڈال رکھی تھی اور پیچھے اسکول بیگ پہنا ہوا تھا لےکر میرے آفس میں آیا کہنے لگا۔ مفتی صاحب ایک مرتبہ آپ سے حمل گرانے سے متعلق شرعی مسئلہ پوچھا تھالیکن آپ نے عدم جواز بتایا تھا چنانچہ میں اللّٰہ پر بھروسا کر کے حکم الہی پر عمل کیاجس کا اللّٰہ نے مجھے یہ انعام دیا کہ میری بیوی کی ساری رپورٹس غلط نکلی اور میرے اللّٰہ نے مجھے صحیح سلامت بیٹی سے نوازا جو آپکے سامنے ہے

*بس اک دم میری آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے*
اور یہ آیت میرے دماغ میں گردش کرنے لگی کہ جو اللّٰہ پر بھروسا کرتا ہے تو اللّٰہ اسکے لیے کافی ہوجاتا ہے۔
بھروسا صرف اور صرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر ھونا چاھے